کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے نتیجے میں پہلی بار کسی فرد کے بازؤں میں بلڈ کلاٹ کا کیس سامنے آیا ہے۔ امریکا کے روٹگرز رابرٹ ووڈ جانسن میڈیکل اسکول کے محققین نے اس کیس کو رپورٹ کیا۔ طبی جریدے جرنل وائرسز میں اس کیس کے بارے میں بتاتے ہوئے ماہرین نے بتایا کہ اس سے کووڈ 19 سے ہونے والے ورم کی وجہ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس طرح یہ علم ہوسکے گا کہ کس طرح بازؤں میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ کیس اس طبی ادارے کے ایک ہزار ہسپتال میں زیر علاج کووڈ کے مریضوں پر ہونے والی تحقیق کے دوران سامنے آیا جو مارچ سے مئی 2020 کے دوران ہسپتال میں زیرعلاج اور ڈسیچارج ہوئے۔ اس سے قبل کووڈ کے نتیجے میں بلڈ کلاٹس کو دریافت کیا جاچکا ہے مگر یہ پہلی بار تھا کہ جب ایک 85 سالہ شخص کے اوپری بازو میں کووڈ کے نتیجے میں بلڈ کلاٹ کو دیکھا گیا۔
محققین نے بتایا کہ یہ مریض بائیں بازو میں سوجن کی شکایت کے ساتھ آیا تھا جس کے بعد اسے مزید معائنے کے لیے ہسپتال بھیجا گیا اور وہاں اوپری بازو میں بلڈ کلاٹ اور کووڈ کی تشخیص ہوئی، تاہم کورونا کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ اس فرد کے خون میں آکسیجن کی سطح میں کمی نہیں آئی مگر اسے بلڈ کلاٹ کے باعث ہسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ عام طور پر ٹانگوں میں بلڈ کلاٹس سامنے آتے ہیں اور محض 10 فیصد کیس میں بازوں میں ایسا ہوتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ 30 فیصد مریضوں میں بازؤں میں سے بلڈ کلاٹ پھیپھڑوں تک سفر کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے مریضوں کو دیگر پیچیدگیوں یسے مسلسل سوجن رہنا، درد اور ہاتھوں کی تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔ تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ طبی ماہرین کو کووڈ 19 کے ایسے مریضوں کی رگوں میں خون کی رکاوٹ کی ٹیسٹنگ پر غور کرنا چاہیے جن کو بغیر کسی وجہ کے سوجن کا سامنا ہو۔ اسی طرح کووڈ کے ایسے مریض کو بھی طبی امداد کے لیے رجوع کرنا چاہیے جن کے خون میں آکسیجن کی سطح کم ہوجائے، سانس لینے میں مشکل محسوس ہو اور بغیر کسی وجہ کے سوجن کا سامنا ہو۔ محققین کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جن میں پہلے بھی بلڈ کلاٹس کی تشخیص ہوچکی ہو یا ایسے دائمی امراض کا سامنا ہو جن میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ بڑھتا ہو، وہ اگر کووڈ کے شکار ہوں تو ان میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
171