تھکاوٹ کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں ان سب سے عام علامات میں سے ایک ہے جن کو صحتیابی کے بعد بھی مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
اس طرح کے مریضوں کو بیماری سے صحتیابی کے کئی ماہ بعد مختلف علامات جیسے تھکاوٹ، سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور وہ روزمرہ کے کام معمول کے مطابق سرانجام نہیں دے پاتے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کی گئی۔
اس طرح کے مریضوں کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور تحقیق میں کووڈ 19 کے مریضوں کی صحتیابی کے بعد 6 سے 9 ماہ تک جائزہ لیا گیا تھا۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن اسکول آف میڈیسین کی اس تحقیق میں شامل بیشتر افراد کووڈ 19 کے نتیجے میں زیادہ بیمار نہیں ہوئے اور انہیں ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
تحقیق ٹیم میں شامل ڈاکٹر ہیلن چو نے بتایا کہ کئی ماہ تک علامات کا تسلسل ان مریضوں میں تو عام ہوتا ہے جو بیمار ہونے کے باعث ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں، مگر ایسا ان افراد میں بھی کافی عام ہوتا ہے جن میں بیماری کی شدت کھ خاص نہیں ہوتی، یہاں تک کہ انہیں کسی کلینک میں جانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس تحقیق میں گریٹر سیٹل ایریا کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا اور ڈاکٹر ہیلن نے بتایا کہ جلد امریکا کے دیگر حصوں کا اضافی ڈیٹا بھی جاری کیا جائے گا۔
یہ ڈیٹا دیگر تحقیقی اداروں کی تحقیقات سے حاصل کیا جائے گا جو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد مریضوں کی حالت پر کی جارہی ہے۔
ڈاکٹر ہیلن نے بتایا کہ امریکا اور دنیا بھر میں کیسز کا موازنہ کرنے سے ماہرین کو لانگ کووڈ کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کو جاننے میں مدد ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ ایسا ہوتا کیوں ہے؟ یہ کسی قسم کا مدافعتی ردعمل کا نتیجہ یے، کسی ورم یا آٹو امیونٹی اس کا سبب ہے
انہوں نے بتایا کہ وہ اور دیگر لیبارٹریز کی جانب سے لانگ کووڈ سے متاثر مریضوں کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کرکے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہووں نے وضاحت کی کہ ہمیشہ کسی وائرل بیماری کے بعد کوئی رجحان دیکھنے آتا ہے، مثال کے طور پر انفلوائنزا کے مریضوں میں تھکاوٹ اور جسمانی توانائی کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بظاہر ایسا ہی کچھ لانگ کووڈ میں بھی ہوتا ہے، مگر اب تک ہمارے پاس ایسے اعدادوشمار نہیں کہ کتنے افراد کو علامات کے تسلسل کا سامنا ہوتا ہے، اب تک اس کی وجوہات یا علاج کے طریقوں کو سمجھنے کے لیے مناسب تحقیق بھی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے سب سے پہلے تعداد کو جاننے اور وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔
تحقیق کے نتائج نوجوان اور صحت مند افراد کے لیے انتباہ ہیں جن کو لگتا ہے کہ کورونا وائرس کا شکار ہونا ان کے لیے نقصان دہ نہیں۔
ڈاکٹر ہیلن نے کہا کہ ابتدا میں لوگ خود کو بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ان میں علامات تشکیل پانے لگتی ہیں۔
محققین نے کہا کہ جب تک ویکسینیشن کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا، اس وقت کووڈ 19 سے بچاؤ کی تدابیر پر عمل کرنا ضروری ہے، کیونکہ یہ بیماری صرف مختصر مدت کے لیے خطرناک نہیں بلکہ اس کے طویل المعیاد اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
اس تحقیقی پراجیکٹ کو ہاروی کا نام دیا گیا تھا اور اس کا آغاز 2016 میں انفلوائنزا اور ملتے جلتے امراض کے اثرات جانچنے کے لیے ہوا تھا۔
اس تحقیق میں کووڈ کو شکست دینے والے 300 افراد کو شامل کرکے طویل المعیاد بنیادوں پر مدافعتی ردعمل اور اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 30 فیصد افراد نے خراب صحت اور بدترین معیار زندگی کو رپورٹ کیا، جبکہ 8 فیصد کے لیے روزمرہ کے کام کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔
ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو بھاری چیزوں کو اٹھانے کے قابل نہیں رہے یا خود سے چلنے سے بھی قاصر ہوگئے۔
ڈاکٹر ہیلن نے مزید بتایا کہ ہم نے اس پر کام شروع کیا ہے کہ کس طرح کی مدد طویل المعیاد علامات کے شکار افراد کے لیے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
محققین نے دریافت کیا کہ 18 سے 36 سال کی عمر کے 27 فیصد، 37 سے 64 سال کی عمر کے 30 فیصد اور 65 سال سے زائد عمر کے 43 فیصد افراد نے طویل المعیاد علامات کو رپورٹ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیق کا دائرہ مید بڑھایا جائے گا اور یہ دریافت حیران کن ہے کہ صحتیابی کے 6 ماہ یا اس سے زائد عرصے بعد بھی کچھ مریضوں کو علامات کا سامنا ہوتا ہے۔
کورونا وائرس کے کروڑوں مریضوں میں ہوسکتا ہے کہ مریضوں کی بہت کم شرح کو لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہو، مگر یہ کم شرح بھی لاکھوں پر ہوسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے۔
179