فرانس کی وزارت خارجہ نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے مسلمانوں کے خلاف قوانین کے حوالے سے بیان پر احتجاج کے لیے پاکستانی سفیر کو طلب کرلیا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے ہفتہ کو مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے فرانس کی حکومت اور قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لینے والے طرز عمل اور قوانین سے گریز کرے کیونکہ اس طرح کے اقدامات سے نفرت اور تصادم کی شکل میں خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فرانس کی حکومت اور قیادت کو چاہیے کہ وہ انتشار اور تعصب کو جنم دینے والے اقدامات کے بجائے عوام کو متحد رکھنے والے اقدامات کرے کیونکہ ایسا نہ کرنے سے جو نقصان ہوگا وہ برسوں پر محیط ہوگا۔ صدر کا کہنا تھا کہ فرانس میں ہونے والی قانون سازی اقوام متحدہ کے منشور اور یورپی معاشرے میں سماجی ہم آہنگی کی روح کے منافی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پورے مذہب کو لیبل کرنا اور پوری کمیونٹی کے خلاف معاندانہ اقدامات سے آنے والے برسوں میں خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
انہوں نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مقدس شخصیات کی توہین کے سدباب کے لیے جامع بین الاقوامی اقدامات اور لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس حوالے سے واضح پیغام دیا ہے کہ ناموس رسالتؐ کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، مسلمان اپنے پیغمبرۖ سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں، جس طرح مغرب میں ہولوکاسٹ سے متعلق قانون سازی کی گئی ہے اسی طرح اسلام اور دیگر مذاہب کی مقدس شخصیات کی عزت و تکریم کے معاملے کو اہمیت دینا چاہیے۔
پاکستان ان متعدد مسلم ممالک میں شامل تھا جہاں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کے خلاف گزشتہ سال اکتوبر میں مظاہرے کیے گئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق فرانسیسی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے پاکستانی ناظم الامور کو طلب کرکے عارف علوی کے بیان پر ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ قانونی بل میں کوئی امتیازی عنصر نہیں ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ‘یہ بل مذہب کی آزادی کے بنیادی اصولوں کے مطابق ہے جس میں مختلف مذاہب کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے اور اس کا اطلاق تمام عقیدوں پر ہوتا ہے’۔
فرانس کی وزارت خارجہ نے کہا کہ ‘لازمی کو یہ لازمی طور پر سمجھنا چاہیے اور ہمارے دوطرفہ تعلقات کے لیے تعمیری رویہ اختیار کرنا چاہیے’۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے فرانسیسی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں منظور ہونے والے بل کو ایمانوئیل میکرون کے اس دعویٰ کا حوالہ دے کر علیحدگی پسندی کے خلاف بل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے کہ مسلمان، سیکولرزم، صنفی برابری اور دیگر فرانسیسی اقدار سے انکار کرکے خود کو فرانس کے معاشرے سے الگ تھلگ کر رہے ہیں۔
اس قانون سازی کے ذریعے ان مذہبی تنظیموں اور عبادتی مقامات کو بند کرنے کے لیے ریاست کے اختیارات میں بڑے پیمانے پر توسیع کی گئی ہے جو ان ‘نظریات یا خیالات’ کی نشر و اشاعت کرتے پائے جائیں جن سے لوگوں اور گروہوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو بڑھاوا ملتا ہو۔
قانون کے ذریعے ‘علیحدگی پسندی’ کو نئے جرم کے طور پر شامل کیا گیا ہے جس کے مرتکب شخص کو 5 سال قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اکتوبر میں فرانسیسی صدر پر ‘اسلام پر حملے’ اور ‘اسلاموفوبیا کی حوصلہ افزائی’ کا الزام لگایا تھا۔
59