156

سینیٹ انتخابات: ممبران عوام کو جوابدہ ہیں یا اپنی جماعت کو؟

لکھاری برکلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے سینئر فیلو ہیں، اور انسپائیرنگ پاکستان نامی ایک ترقی پسند پالیسی یونٹ کے سربراہ ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ کی تجویز نے سیاسی کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس وجہ سے میں اس کے قانونی پہلو کو عدالت پر چھوڑتے ہوئے اوپن ووٹ کے سیاسی پہلوؤں پر بات کرتا ہوں۔
20ویں صدی کے وسط تک قومی انتخابات میں عوام کی جانب سے خفیہ ووٹنگ کا عمل معمول بن چکا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کو کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد رکھنا اور رازداری کو یقینی بنانا تھا۔ تاہم بالغ جمہوریتوں میں پارلیمان کے اندر اسپیکر اور دیگر عہدوں کے لیے ہونے والی ووٹنگ اکثر خفیہ نہیں ہوتی۔
چونکہ پارلیمان میں موجود نمائندے اپنے ووٹروں کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں اس وجہ سے ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان کے خیالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ووٹ دیں گے۔ عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ ان کے منتخب کردہ نمائندے تمام امور پر کس طرح رائے دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے پاس بھی یہ حق موجود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً ان نمائندوں کی جیت میں سیاسی جماعت کے اپنے ووٹ بینک اور وسائل کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
اب یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا ان عوامی نمائندوں کو اوپن ووٹ میں اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینا چاہیے؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ انہیں اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دینا چاہیے کیونکہ انہوں نے عام انتخابات میں اپنی جماعت کے نام اور وسائل کا فائدہ اٹھایا ہوتا ہے، اور پھر جماعتی بنیاد پر ہونے والی سیاست غیر جماعتی سیاست سے بہتر ہوتی ہے۔
جماعتی بنیاد پر ہونے والی سیاست میں لوگ ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے مل کر کوشش کرتے ہیں تو اگر کسی جماعت کا نمائندہ جماعتی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینے لگے تو وہ مشترکہ جدوجہد کو نقصان پہنچاتا ہے۔
امیدوار جماعت کے منشور سے واقف ہوتے ہیں اور ٹکٹ کے حصول کے وقت وہ اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ جیت گئے تو ایوان میں اپنی جماعت کے منشور کی حمایت کریں گے۔
اس کے برعکس ایک دوسری رائے یہ ہے کہ قانون سازوں کو اپنی مرضی سے ووٹ دینے کی آزادی ہونی چاہیے اور اس ضمن میں جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے پر مجبور کرنا ایک آمرانہ قدم ہے۔
اس وجہ کو خفیہ پارلیمانی ووٹنگ کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ عوامی نمائندوں پر سے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کی اندھی تقلید کا دباؤ ختم کیا جاسکے۔ لیکن دوسری جانب خفیہ ووٹنگ کو بدعوانی اور ووٹ خریدنے سے بھی جوڑا جاتا ہے۔
اگر برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسی جمہوریت کی بات کی جائے تو وہاں ایک توازن موجود ہے۔ وہاں ووٹنگ اوپن ہوتی ہے اور ریاست کے قوانین نمائندگان کو اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کا پابند نہیں کرتے۔ لیکن آسٹریلیا کی لیبر پارٹی جیسی چند جماعتیں اپنے نمائندگان سے باقاعدہ اس بات کا حلف لیتی ہیں کہ وہ جماعت کی پالیسی کے مطابق ہی رائے دیں گے۔
اکثر جماعتیں پارلیمانی ووٹنگ میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے پارلیمانی ’وِہپ‘ اور پابندیوں جیسے غیر روایتی طریقوں کا سہارا لیتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ جماعتیں سزائے موت جیسے متنازع معاملات یا ان معاملات پر جو ان کے منشور سے باہر ہوتے ہیں، اپنے نمائندگان کو ان کی مرضی سے رائے دینے کی آزادی دیتی ہیں۔
تاہم ان ممالک میں تقریباً ہر مسئلے پر پارٹی پالیسی کے مطابق ہی ووٹ دیا جاتا ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایک عوامی نمائندے کے لیے اپنی مرضی سے رائے دینے کے حق پر سیاسی جماعتوں اور عوام کے حق کو ترجیح تو دی جاتی ہے لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 226 میں وزیرِاعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے علاوہ پارلیمان میں ہونے والے تمام انتخابات میں خفیہ رائے شماری کی بات کی گئی ہے۔ قانون سازی کے حوالے سے رائے شماری اگرچہ خفیہ نہیں ہوتی لیکن آواز کے ذریعے ہر فرد کی رائے کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے انفرادی رائے کو جانچنے کے لیے کسی بہتر تکنیک کی ضرورت ہے۔
آرٹیکل 63 اے کے مطابق وزیرِاعظم اور وزیرِاعلٰی کے انتخاب، تحریک عدم اعتماد اور آئینی ترامیم کے حوالے سے ہونے والی رائے شماری میں اگر کوئی نمائندہ اپنی جماعت کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اسے ڈی سیٹ کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے نمائندگان کو جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے پر تیار کرنے کے لیے غیر روایتی راستے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔ قانون سازی کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں اوپن ووٹ کی روایت تو بڑی جمہوریتوں میں موجود ہے لیکن پارلیمان کے اندر ہونے والے انتخابات میں خفیہ رائے شماری کی شق کہیں نہیں ہے۔
اس وجہ سے سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ کی پی ٹی آئی کی تجویز تو درست ہے لیکن اس کا وقت، محرک اور اس حوالے سے دی جانے والی منطق درست نہیں ہے۔
انتخابات کے قریب اس معاملے کو اٹھانے سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ اس کا مقصد شفافیت لانا نہیں بلکہ ذاتی مفادات ہیں۔ اس خیال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی ساری توجہ صرف سینیٹ اتخابات پر ہے اور وہ تمام پارلیمانی انتخابات کی بات نہیں کر رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے سینیٹ کے چیئرمین کے لیے ہونے والے انتخابات کی بات بھی نہیں کی جس پر ماضی میں کراس ووٹنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی یہ منطق بہت کمزور ہے کہ چونکہ سینیٹ کے انتخابات الیکشن کمیشن کرواتا ہے اس وجہ سے وہ آئین اور آرٹیکل 226 کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ ہر وہ انتخاب جو کسی آئینی شق کے تحت ہو آئین کے دائرہ اختیار میں ہی آتے ہیں، چاہے ان انتخابات کو کروانے کی ذمہ داری کسی کی بھی ہو۔
پی ٹی آئی کی یہ منطق بھی غلط ہے کہ متناسب نمائندگی کے بارے میں آرٹیکل 59 (2) کا مطلب یہ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کسی بھی جماعت کی پارلیمانی قوت کے آئینہ دار ہوں۔ اس حوالے کا مطلب یہ ہے کہ اس شق میں شامل سنگل ٹرانسفر ایبل ووٹ کے ذریعے ایک جماعت کو ملنے والی سیٹیں سینیٹ انتخابات میں ملنے والے ووٹوں کے مطابق ہونی چاہئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سینیٹرز اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق ووٹ دینے کے پابند نہیں ہوتے اور یوں یہ منطق بھی کمزور ہوجاتی ہے۔ عدالت اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرے تاہم پی ٹی آئی کو چاہیے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد پارلیمان کے اندر ہونے والی تمام خفیہ رائے شماری کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک جامع بل پیش کرے اور پھر سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں کو یہ فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندوں کو کس حد تک آزادی دینا چاہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں